جموں وکشمیر کی سرمائی راجدھانی جموں میںراجوری
،پونچھ اور وادی کشمیر کے مختلف علاقوں میں بسنے والے پہاڑی قبیلہ کے لوگوں نے کثیر
تعداد میں بود وباش اختیار کر رکھی ہے۔ ملازمت، وکالت یا دیگر کاروبار کے سلسلہ میں
ہزاروں کی تعداد میں یہاں لوگ رہتے ہیں کچھ نے مکانات بھی تعمیرکئے ہیں اور کچھ
کرائے پر رہ رہے ہیں۔سرمائی ایام کے دوران یہ تعداددوگنی چوگنی ہوجاتی ہے۔ کپواڑہ،
کرناہ، اوڑی، ٹنگڈار، لولاب،کوکرناگ، گاندربل ، ، سرینگر وادی کے دیگر علاقوںسے بڑی
تعداد میں لوگ اپنے اہل وعیال کو لیکر یہاں آتے ہیں۔
پہاڑی قبیلہ سے وابستہ بڑی تعداد میں
بچے جموں کے متعدد اسکولوں، کالجوں کے ساتھ ساتھ جموں یونیورسٹی، کلسٹر یونیورسٹی،
سینٹرل یونیورسٹی، زرعی یونیورسٹی ، آئی آئی ٹی، جی ایم سی کالج وغیرہ میں زیر ِ
تعلیم ہیں۔ ایسے نوجوانوں کی بھی تعدادسینکڑوںمیں ہے جواپنی تعلیم مکمل کرچکے ہیں
اور اِ س وقت جموں میں متعدد تقابلی، ومسابقتی امتحانات کے لئے تیار ی بھی کر رہے
ہیں۔ملازمین کی بھی اچھی خاصی تعداد ہے جوکہ متعدد سرکاری دفاتر میں تعینات ہیں
اور معہ اہل وعیال یہاں رہتے ہیں۔جموں کے پبلک مقامات، پارکوں، باغات، شاپنگ مالز،
سیمینا ہالوں میں بھی روزانہ آپ کو کثیر تعداد میں پہاڑی طبقہ کے نوجوانوں کی دیکھنے
کو ملے گی۔
کلچرل اکیڈمی کے زیر اہتمام 7روزہ Poetry Festivalکے تحت 29دسمبر2022پہاڑی کے لئے مخصوص
تھا۔ اس روز پہاڑی محفل ِ مشاعرہ منعقد کی گئی،11سے دو بجے تک کا پروگرام تھا۔ اس
میں چالیس کے پہاڑی شعرا ءحضرات کو جموں وکشمیر کے اطراف واکناف سے مدعو کیاگیاتھا
جن میں کچھ اپنی ذاتی مجبوری یا دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے نہ آسکے لیکن 22کے قریب
شعرا ءاودبا نے شرکت کی۔ جن کو آنے جانے کے لئے TA&DA اور محفل مشاعرہ میں شرکت کے لئے مشاہیرہ
بھی دیاجاتا ہے۔ شرکاءکے لئے اکادمی کی طرف سے ریفرشمنٹ کا بھی اہتمام کیاگیا، یعنی
کے مشاعرے کے انعقاد پر اچھی خاصی رقم خرچ کی گئی اور یہ سب صرف زبان وادب کو فروغ
دینے کے مقصد سے تھا۔
اس مشاعرے میں سرکردہ ادیب ،شاعر وماہر
تعلیم شیخ آزاد احمد آزاد،25سے زائد کتابوں کے مصنف پرویز مانوس ، معروف شاعر رشید
قمر، خوبصورت کلام کے ساتھ ساتھ مترنم ومسحور کردینے والے آواز کے مالک بشیر
لوہار، نوجوان لکھنے والوں میں نمایاں نام صدیق احمد صدیقی، خالص پہاڑی زبان میں
انتہائی عمدہ کلام لکھنے والے سلیم جاوید قریشی اور اُبھرتے ادیب وشاعر عقیل
کلاروسی جیسے کئی بڑے نام تھے۔ اِس مشاعرے میں سرنکوٹ ، کرناہ، ولی واڑ گاندربل،
کلاروس اور ٹنگمرگ تک شعرا اِس جوش سے آئے تھے کہ کویڈ 19وباءبحران کے وجہ سے دو
سال کی تاخیر کے منعقدہ ریاستی سطح کی اِس محفل ِ مشاعرہ میں ہم اپنا کلام پیش کریں
گے اور سامعین سے اُنہیں بھر پور داد ملے گی۔ نوجوان شعرا کو یہ اُمید تھی کہ وہ
اتنے بڑے پلیٹ فارم پر پرفارم کریں گے تو اُن کی مزید حوصلہ افزائی ہوگی۔
مشاعرے کی اطلاع سوشل میڈیا ، فیس بک، وہاٹس ایپ گروپوں کے ذریعے چند روز پہلے دی گئی تھی ۔ اس کے علاوہ اکیڈمی کے ذمہ داران نے بھی بذریعہ فون فرداًفرداًجموں میں دستیاب پہاڑی طبقہ کے لوگوں کو اس میں شرکت کی اپیل کی گئی تھی۔11بجے مشاعرہ شروع کرنے کا وقت تھا، شعرا حضرات پہنچے مگر کے ایل سہگل ہال جس میں 250سے300افراد کے بیٹھنے کی گنجائش ہے، خالی تھا۔ شعراءکے چہرو
محفل مشاعرے میں انتہائی عمدہ کلام
شعرا حضرات نے پیش کیا جس میں فلسفہ بھی تھا، تاریخ بھی تھی، سماجی ومذہبی پہلو بھی
تھا اور اپنی ثقافت کی بھی جھلک تھی۔ صرف سننے والا کوئی نہیں تھا۔1بجے کے بعد
محفل مشاعرہ میں خالی نشستوں پر کچھ لوگوں کی آمد ہوئی لیکن وہ 2بجے شروع ہونے
والے اُردو پروگرام کے لئے آئے تھے ۔ کلچرل اکیڈمی کی طرف سے انتظامات، تیاریوں میں
نہ کوئی کسر باقی نہ چھوڑی گئی تھی ، کمی تھی تو ہماری عدم موجودگی۔ اس سے ظاہر
ہوتا ہے ہم نے اپنے گھروں میں اپنے بچوں کو اپنی زبان وادب کے تئیں کتنا بیدار کیا
ہے۔
ٹھیک ایک روز قبل یعنی27دسمبر کو گوجری
محفل مشاعرہ تھا جس میں گجر بکروال کی چیدہ چیدہ شخصیات کے علاوہ طلبا، نوجوانوں
اور اسکالروں کی بھی اچھی خاصی تعداد بھی۔ گذشتہ دنوں ہم کچھ دوستوں نے مل کر محفل
موسیقی رکھنے کا فیصلہ کیا۔ گلوکار جموں میں دستیاب تھے جنہوں نے فوری محفل میں
بلا اُجرت شرکت کے لئے حامی بھی بھر لی۔ دوستوں نے اپنے باہمی مالی تعاون سے
25دسمبر کی شام کو بٹھنڈی مکہ مسجد چوک کے نزدیک ایک جگہ محفل موسیقی کا اہتمام کیا۔
ہر ایک کو فون کرنے کے علاوہ سوشل میڈیا کے ذریعے بھی اطلاع دی گئی۔بٹھنڈ ی اور
اِس کے مضافات میں اچھی خاص تعداد میں پہاڑی طبقہ کے لوگ رہتے ہیں، اگر وہ جمع
ہونا چاہتے تو پانچ سو ہزار لوگ جمع ہوسکتے ہیں لیکن بمشکل اس محفل میں17لوگ تھے۔ یہ
اچھا ہوا کہ ہم نے سبھی کو دعوت دی تو اِس میں گجر طبقہ کے لوگوں کی اچھی خاصی
تعداد آئی اور یہ محفل کامیاب ہوگئی۔
کوئی دن ایسا خالی نہیں گذرتا جب کسی نہ کسی کا فون نہ آئے اور وہ ایس ٹی اسٹیٹس کا قانون کی منظوری کے متعلق اپ ڈیٹ معلوم نہ کریں ۔ بہت سارے نوجوان کہتے ہیں کہ کہیں ریزرویشن ملتی تو ہم نوکری لینے کے قابل ہوسکتے۔ شدت سے اِس کا انتظار اور یہ چاہت ٹھیک لیکن جس مخصوص زبان وثقافت کو بنیاد بنا کر ہم اِس طویل جدوجہد کی حصولی کے آخری پڑاو
صرف محفل مشاعرہ ہی نہیں۔پہاڑی زبان
وادب سے متعلق کوئی بھی سرگرمی اگر جموں میں ہوتی ہے اُس میں ہماری شرکت انتہائی
کم رہی ہے۔ زبان وادب میں اتنی عدم دلچسپی دکھانے کے بعد ہم یونیورسٹیوں میں پہاڑی
شعبہ کھولنے، اسکولوں میں پہاڑی پڑھانے کی تمنا رکھتے ہیں۔ اگر ایسی ادبی وثقافتی
سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی نہیں کی جائے گی تو قلمکار، آرٹسٹ، شاعر، ادیب کہاں سے پیدا
ہوں گے اور وہ اپنے فن کا مظاہرہ کس کے سامنے کریں گے۔ جو زبان وکلچرہماری شناخت
ہے اُس کو دانستہ طور پر ہم نظر انداز کر کے اپنی ذہنی غلامی کا ثبوت دیتے ہوئے مغربی
کلچر کو فروغ دینے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔اپنے کلچراور زبان کو نظر انداز کرکے ہم
اپنے کو ادبی لحاظ سے یتیم قوموں میں شمار کر رہے ہیں۔کامیاب قومیں صرف سیاسی
جلسوں سے نہیں بنتیں، سیاست صرف ایک شعبہ ہے ۔ وہی تہذیبیں دیر پارہتی ہیں جن کے
پاس ادبی وثقافتی خزانہ ہے۔ ہم سب کو اس پر اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے۔