پہاڑی قبیلہ کا ایس ٹی مطالبہ:اہم مراحل طے!
ستر کی دہائی میں کرناہ اور وادی کشمیر کے دیگر علاقہ جات میں رہائش پذیر پہاڑی قبیلہ کے لوگوں کی طرف سے اقتصادی، تعلیمی وسماجی ترقی اور مخصوص لسانی، ثقافتی اور نسلی شناخت کے تحفظ کے لئے شروع کی گئی جدوجہد اور اپنے اپنے وقت میں اپنی حیثیت، بساط، عہدے، اختیار کے مطابق انفرادی اور اجتماعی طور قبیلہ سے جڑے افراد کی طرف سے دی گئی قربانیوںوخدمات کی وجہ سے جلداپنی منزل مقصود پر پہنچنے والی ہے۔ پہاڑی قبیلہ کی طویل جدوجہدکا ثمر اور نئے چیلنجوں کے ساتھ نئی صبح منتظرہے۔
مارچ2020میں تشکیل دی
گئی سہ رکنی بیکورڈ کلاس کمیشن کی سفارشات پرمرکزی سطح پر درج فہرست قبائل زمرہ
میں کسی بھی قبیلہ کو شامل کرنے کے لئے انتہائی اہم اور با اختیار اداروں.رجسٹرار
جنرل آف انڈیا(RGI)اور نیشنل کمیشن فار شیڈیول ٹرائبز(NCST)نے اپنی مہرثبت کر دی ہے۔اب مرکزی وزارت برائے قبائلی
امور جوکہ اِس میں نوڈل ڈپارٹمنٹ بھی ہے،محکمہ قانون، خزانہ ومنصوبہ بندی سے رسمی
مشاورت کے بعد فائل کو مرکزی کابینہ میں پیش کرے گا جہاں سے منظوری ملنے کے بعد
ریزرویشن ترمیمی بل پارلیمنٹ میں پیش کیاجائے گا ۔ پھر حتمی طور آئین ِ ہند کی
دفعہ342کے تحت صدرجمہوریہ ِ ہند اپنے دستخط کرے گا اورباقاعدہ نوٹیفکیشن جاری
ہوگا۔ مختصر کہ بقول وزیر داخلہ یہ انتظامی کارروائی کے بقیہ مراحل ہی ہیں۔
رجسٹرار جنرل آف انڈیا اور نیشنل کمیشن فار شیڈیول ٹرائب دوایسے ادارے ہیں جہاں سے
آگے اِس سے فائل نہیں بڑھ پائی تھی اور ہمیشہ یکے بعد دیگر رکاوٹیں حائل ہوتی رہی
ہیں۔
Advocate Altaf Hussain Janjua
سال 1989میں جب جموں وکشمیر حکومت کی طرف سے متعدد طبقہ جات جس میں پہاڑی بھی شامل تھے، کو ایس ٹی میں شامل کرنے کے لئے کابینہ آرڈر پاس کر کے مرکز کو سفارشات بھیجی گئی تو تب سے لیکر آج تک رجسٹرار جنرل آف انڈیا(RGI)دفتر سے ’ن ‘میںسے نکتے نکالے جاتے رہے ہیں اور بار ہاجموں وکشمیر حکومت کو لکھاگیاکہ اِس پر مطمئن کریں۔ اِسی ضمن میں ایف ایس ایل بھٹ کی رپورٹ، پیرزادہ حمید کی سربراہی میں تشکیل دی گئی کمیشن اہم ترین تھیں جنہوں نے تفصیلی طور ہرنکتے کی وضاحت کی ، مگر باوجود اِس کے مرکز میں زبردست لابی ازم ہونے کی وجہ سے پہاڑی قبیلہ کا یہ اہم مطالبہ صرف دفتری پیچیدگیوں میں ہی پھنس کر رہ گیاتھا ۔1991کے بعد سے لگاتار ’ایس ٹی ‘کے لئے جدوجہد جاری رہی لیکن مرکزی سطح پر پہاڑی قبیلہ کا کوئی ایسا نمائندہ نہیں تھا جوکہ حکومت کی توجہ اِس اہم مسئلے پر مبذول کرواکر اُس کو حل کرواتا۔ اس دوران جموں وکشمیر کی جتنی بھی جماعتیں اقتدار میں آئیں ، سبھی نے چاہئے وہ سیاسی مجبوری پر کیا یا اِس کو اہم مسئلہ سمجھ کر کیا، مگر سفارشات کیں، مرکز کو لکھا۔ جموں وکشمیر قانون ساز اسمبلی میں قرار دادیں بھی پاس کیں، مگر سابقہ مرکز ی سرکاروں پر کوئی فرق نہ پڑا۔ ریاست بہت طاقتور ہوتی ہے ، وہ جب کوئی فیصلہ کرنے پر آئے تو پھر تمام مراحل تیزی سے طے ہوتے ہیں۔پہاڑی قبیلہ میں بھاجپا حکومت سے اِس لئے بھی اِس مطالبہ زیادہ اُمیدیں وابستہ تھیں، کہ اِن کے قول وفعل میں تضاد نہیں، جوکہتے ہیں کر تے بھی ہیں، چاہئے آپ کو اُس سے اتفاق ہو یا نہ ہو۔برسرِ اقتدارجماعت نے پہاڑی قبیلہ کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا، جوکہااُس پر عمل بھی کر دکھایا ۔جن مراحل کو طے ہونے میں تین دہائیوں سے زائد کا عرصہ گذرچکا تھا، ایک ماہ کے اندر ہی وہ اہم مراحل طے ہوگئے اور قوی امکان ہے کہ مجوزہ سرمائی پارلیمانی اجلاس میں ترمیمی بل بھی پیش کیاجائے۔ امت شاہ جنہیں سردار ولبھ بھائی پٹیل کے بعد انتہائی طاقتور وزیر داخلہ مانا جارہا ہے ، نے 24اکتوبر2021کو جموں میں جلسہ کے دوران ہی واضح کر دیاتھا ، مگر اِس پر کچھ حلقوں میں کنفیوژن تھی کہ شاہد اُنہیں مغالطہ لگا مگر 4اکتوبر 2022کو راجوری عوامی جلسہ میںانہوں نے واضح الفاظ میں پہاڑی قبیلہ کے حوالے سے حکومت کی نیت کو ظاہر کر دیاتھا۔
جموں وکشمیر تنظیم نوقانون2019کے اطلاق سے بڑے پیمانے پر اِس خطہ میں ہوئی تبدیلی کے بعد اس ضمن میں سب سے اہم پیش رفت دسمبر 2019میں اُس وقت ہوئی جب پہاڑ ی قبیلے کا ایک نمائندہ وفد مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ سے نئی دہلی میں ملا۔ وفد نے 5اگست2019کے تاریخی فیصلے کے بعد پہاڑی قبیلہ کو ہوئے نقصانات، مسائل اور چیلنجز بارے تفصیلی طور بتایا۔ وفد کافی حد تک اپنی بات وزیر موصوف کو سمجھانے میں کامیاب رہا جنہوں نے بتایاکہ وہ جلد ایک کمیشن بنانے جارہے ہیں جوجموں وکشمیر میں از سرنوریزرویشن کے حوالے سے اپنی رپورٹ پیش کریگا۔ اپنے وعدے کو وفا کرتے ہوئے مرکزی وزار ت داخلہ کی ہدایت پر محکمہ قانون وپارلیمانی امور حکومت ِ جموں وکشمیر نے 19مارچ2020کو گورنمنٹ آرڈرنمبر2230-JK(LD) of 2020جاری کیا جس میں جسٹس (ریٹائرڈ) جی ڈی شرما، ریٹائرڈ آئی ایف ایس افسر روپ لال بھارتی اور آئی پی ایس منیر احمد خان پر مبنی سہ رکنی بیکورڈ کمیشن تشکیل دیاجس کو یہ اختیار حاصل تھاکہ وہ جموں وکشمیر میں تمام ایسے طبقہ جات کو سنے اور جائزہ لے جواقتصادی، سماجی اور تعلیمی طور پسماندہ ہیں۔ کمیشن سے یہ بھی بتانے کو کہاگیاتھاکہ بتایاجائے کون کون طبقہ جات کو ایس سی، ایس ٹی یا او بی سی میں ڈالاجائے۔ یہاں یہ بات قابل ِ ذکر ہے کہ اِس کمیشن کا ایک اہم مقصد تنظیم نو جموں وکشمیر کے بعد یہاں پر دی جانے والی ریزرویشن کو مرکز کی طرز پرکرناتھا کیونکہ اب یہاں پر ریزرویشن ایس سی، ایس ٹی، او بی سی اور آئی بی کی صورت میں ہوگی جبکہ RBA، اے ایل سی اور پی ایس پی کو ختم کیاجائے گا۔ مذکورہ کمیشن کی 2سال مدت تھی اور پہلی رپورٹ تین ماہ کے اندر پیش کرنا تھا، جس نے اپنا کام شروع کیا، اس دوران مختلف طبقہ جات کے سینکڑوں وفود کمیشن سے ملے جس میں درجنوں مرتبہ پہاڑی قبیلہ سے وابستہ سابقہ لیجسلیچرز، وکلاء، سابقہ بیروکریٹس اور اہم سماجی وسیاسی شخصیات کی ملاقات ہوئی جنہوں نے تفصیلی طور کمیشن کے سامنے تمام تر اعدادوشمار اور حقائق رکھے۔ اگست 2021میں یہ بات معلوم ہونے پر کہ کمیشن پہاڑی قبیلہ کے ’ایس ٹی ‘مطالبے کیلئے پیش کردہ جوازیت سے متفق ہے اور حق میں سفارشات پیش کیاجانا یقینی ہے....تو پہاڑی قبیلہ کی نوجوان لیڈرشپ نے قبیلہ کو متحرک کرنے اور رائے عامہ ہموار کرنے کے لئے سرگرمیاں شروع کیں جس میں سوشل میڈیا ، الیکٹرانک وپرنٹ میڈیا نے اہم رول ادا کیا۔ قبیلہ کے منتخب پنچایتی ممبران، ڈی ڈی سی ممبران ، وکلائ، طلبا کی سرگرم شمولیت سے یہ بیداری مہم کامیابی سے آگے بڑھے جس کا عملی مظاہرہ 24اکتوبر2021کو بھگوتی نگر جموں ،4اکتوبر2022کو راجوری اور5اکتوبر 2022کو بارہمولہ میں منعقدہ وزیر داخلہ کے عوامی جلسوں میں دیکھنے کو ملا۔ اِن تینوں عوامی جلسوں میں4اکتوبر 2022کا راجوری میں جلسہ تاریخی نوعیت کا تھا جس میں غیر متوقع طور خطہ پیر پنجال سے پہاڑی قبیلہ نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔اس دوران قبیلہ کی سنیئر قیادت، معزز شخصیات، سابقہ اراکین قانون سازیہ اور وکلاء، سابقہ بیروکریٹس نے اپنی سطح پر منظم طریقہ سے اپنا اپنا رول نبھانے کے ساتھ ساتھ ہرپیش رفت کی نگرانی رکھی۔ خوش قسمتی کی بات یہ بھی تھی کہ حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کا جموں وکشمیر اکائی صدر کا تعلق پہاڑی قبیلہ سے ہے، علاوہ ازیں دیگر کئی بڑے چہرے بھی اِس جماعت سے وابستہ ہیںجومرکز کو پہاڑی قبیلہ کا یہ مطالبہ سمجھانے میںکامیاب رہے۔سب سے اہم چیز یہ بھی رہی کہ ماضی کی غلطیوں کو دوہرایا نہیں گیا اور مخالفت، تنقید کو مثبت انداز میں لیکر اپنے آپ کو مضبوط کرنے پر توانائی صرف کی گئی۔
اس وجہ سے جتنی بھی مخالفت ہوئی وہ بھی فائیدہ
مند ثابت ہوئی۔ خیال رہے کہ پہاڑی قبیلہ کوجدوجہد جومنزل کے بہت قریب ، کے لئے
’جموں وکشمیر پہاڑی کلچر اینڈ ویلفیئر فورم ‘کے بینر تلے ستر کی دہائی میں تحریک
شروع ہوئی تھی جس کی جہدوجد کے نتیجے میں آل انڈیا ریڈیو سرینگر سے پہاڑی پروگرام،
پہاڑی خبروں کی نشریات، دور درشن سرینگر سے پروگرام ’لشکارا‘، جموں وکشمیر اکادمی
برائے فن وتمدن اور لسانیات میں اعلیحدہ سے پہاڑی زبان وادب کی ترویج وترقی کیلئے
شعبہ کا قیام، قبیلہ کی ترقی کے لئے جموں وکشمیر پہاڑی ایڈوائزری بورڈ کی تشکیل،
9سے زائد پہاڑی ہوسٹلوں کا قیام، پہاڑی قبیلہ کے طلبا کیلئے اسکالرشپ،ایس ٹی ملنے
تک جموں وکشمیر کے اندر4فیصد ریزرویشن وغیرہ جیسے اہم حکومتی اقدامات کے ساتھ ساتھ
زبان وادب اور ثقافت کی ترویج وترقی کے حوالے سے بیداری لانے میں اہم رول ادا کیا۔
اس کے علاوہ بھی درجنوں تنظیمیںبھی پہاڑی قبیلہ کی اقتصادی، سیاسی، سماجی، لسانی
وتعلیمی ترقی کے حوالے سے اپنا اپنا کام کر رہے ہیں۔ پہاڑی قبیلہ کی ایس ٹی جدوجہد
کا منزل تک پہنچنا بہت بڑی کامیابی ہے ، جہاں ہم اِس پر شادماں ہیں۔ اظہا ر ِ مسرت
واظہار تشکر کے ساتھ ساتھ آنے والے چیلنجوں ، مسائل سے نپٹنے کے لئے بھی آج سے ہی
سنجیدگی سے غوروفکر کی ضرورت ہے۔
الطاف حسین جنجوعہ
وکیل ہائی کورٹ جموں
Mobile.7006541602
altafhussainjanjua120@gmail.com