دو روزہ پہاڑی ادبی وثقافتی کانفرنس کا آغاز
پہلے دن ناول اور افسانوی مجموعہ کے اجرائ،مقابلہ اور افسانہ کی محفل منعقد
جموں//جموں وکشمیر اکیڈمی آف آرٹ کلچر اینڈ لینگویجز کے زیر اہتمام پیر سے دو روزہ پہاڑی ادبی اور ثقافتی کانفرنس کا آغاز ہوا جس میں کثیر تعداد میں فنکاروں، شعرااور ادبی شخصیات نے شرکت کی۔ سابقہ ایم ایل اے اور بھاجپا سنیئر رہنما راویندر رینہ مہمان ِ خصوصی تھے جبکہ ایوان ِ صدارت میں سابقہ ایم ایل سی ایڈووکیٹ محمد راشید قریشی، ڈی ڈی سی ممبر درہال محمد اقبال ملک، ممتاز پہاڑی ادیب شاعر ومحقق کے ڈی مینی ، اکیڈمی سیکریٹری ہرویندر کور اور اکیڈمی صوبائی انچارج اور گوجر ی شعبہ کے مدیر اعلیٰ ڈاکٹر جاوید راہی بھی موجود تھے۔ تقریب کا آغاز میں دو پہاڑی تصانیف جن میں پرویز مانوس کا ناول ’قبیلہ‘ اور اقبال شال کا افسانوی مجموعہ ’تریڑاں‘کی باضابطہ رونمائی کی گئی۔قبیلہ کا تجزیہ ایڈووکیٹ الطاف حسین جنجوعہ جبکہ ’تریڑاں ‘کا جائزہ سلیم علی بخاری نے پیش کیا۔ استقبالیہ خطبہ کلچرل سیکریٹری ہرویندر کور نے پیش کیا جس میں انہوں نے بتایاکہ پہاڑی خطے کی اہم زبانوں میں سے ایک ہے۔ اکیڈمی نے 1978 سے پہاڑی زبان وثقافت کو فروغ دینے کے لیے ہزاروں کتابیں شائع کی ہیں اور متعدد کانفرنسیں، سیمینارز اور ثقافتی پروگرامز منعقد کیے ہیں۔اپنے صدارتی خطاب میں رویندر رینہ نے پہاڑی زبان کی ثقافتی ورثے پر زور دیا، جو صدیوں سے پروان چڑھ رہی ہے۔ انہوں نے اکیڈمی کی تعریف کی کہ اس نے جموں میں ایسی کانفرنس کا انعقاد کیا اور پہاڑی طبقہ کے لکھاریوں اور فنکاروں سے اپنی زبان اور ثقافتی شناخت کے تحفظ میں فعال کردار ادا کرنے کی اپیل کی۔محمد اقبال ملک نے اپنے خطاب میں نوجوان نسل کو اپنی لسانی اور ثقافتی جڑوں سے جوڑنے کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے کمیونٹی سے اپیل کی کہ وہ مل کر پہاڑی زبان اور ورثے کی ترقی اور تحفظ کے لیے کام کریں۔کلیدی خطاب میں کے ڈی مینی نے پہاڑی زبان کی شناخت کے لیے پچاس سالہ تحریک کا جائزہ پیش کیا، جس میں اس کے لکھاریوں کی بے شمار خدمات کو اُجاگر کیا۔ انہوں نے کہا کہ پہاڑی ادب نے نمایاں ترقی کی ہے اور اب یہ پنجابی اور ڈوگری جیسی ترقی یافتہ زبانوں کے ہم پلہ ہے۔محمد رشید قریشی نے اپنے خطاب میں اس موقع پر جاری کردہ دونوں کتابوں پر بات کی اور پہاڑی لکھاریوں کو معیاری ادب تخلیق کرنے اور ثقافتی تحفظ کے لیے خود کو وقف کرنے کی ترغیب دی۔پہلی نشست میں مذمل شاہ،وسیم انجم اور شعر سنگھ سیف الملوک اور پہاڑی گیت بھی پیش کیا۔
دوسری نشست محفل افسانہ اور مقالے کی ہوئی جس کی صدار ت شیخ آزاد احمد آزاد نے کی جبکہ پروفیسر رشید منہاس اور اکیڈمی کلچرل افسر محمد ایوب نعیم مہمان ِ ذی وقار کے طور تھے۔ ظنفر کھوکھر نے ’ہک تھالی نے چٹے بٹے‘، سردار رتن سنگھ کنول ’اصلاح‘ اور اقبال شال نے چالیسواں افسانہ پیش کیا۔ جاوید حقانی نے ’پہاڑی لوگوں کا پہناوا اور زیورات‘ اور الطاف حسین جنجوعہ نے ’پہاڑی زبان کی ترقی میں ڈیجیٹل دُنیا کا کردار‘پر تحقیقی مقالے پیش کئے۔ محفل افسانہ کی نظامت کے فرائض الطاف حسین جنجوعہ جبکہ محفل مقابلہ میں نظامت صدیق احمد صدیقی نے انجام دی۔شیخ آزاد احمد آزاد نے ’دو سدیاں لکیراں‘پہاڑی افسانہ پیش کیا۔ اپنے صدارتی خطاب میں انہوں نے پیش کئے گئے افسانوں اور مقالات کی تعریف کی اور اصلاح بھی کی۔ انہوں نے اِس نوعیت کا پروگرام منعقد کرنے پر کلچرل اکیڈمی کی تعریف کی۔ تقریب میں کئی ممتاز شخصیات نے شرکت کی، جن میں پہاڑی مشاورتی بورڈ کے سابقہ سیکریٹری شوکت کاظمی، سابقہ ڈائریکٹر اسکول ایجوکیشن گلزار قریشی، سابقہ ڈپٹی کمشنر غلام احمد خواجہ، اجے شرما (ایس پی سٹی)، پروفیسر رشید منہاس، پروفیسر نِتن شرما، پروفیسر عمران خان، پروفیسر قیوم خان، ڈاکٹر راجندر چاڑک، راجیو کھجوریہ، انور خان ،سوامی انترنیر، رشید قمر، پروفیسر ایم کے وقار، پریتی شرما، شیخ آزاد احمد آزاد، ذاکر خاکی، پروفیسر ایم کے وقار، طاہر محمود ،کرامت ملک، ٹریڈ یونین لیڈر بابو حسین ملک، پربھات بالی، ذولفقار راحت، خالد ایوان بھٹ، بشیر لوہار، سید تبسم،بلال احمد بلال، ملک ذاکر خاکی، محمد پرویز ملک ، ایڈووکیٹ مرتضیٰ اکثر، سائمہ قاضی وغیرہ موجود تھے۔