شاردا رسم الخط کی تاریخ کا مختصر
(یہ وہ رسم الخط ہے جس میں سنسکرت پرارکت،کشمیری
پہاڑی ،دردی پنجابی زبانیں لکھی جاتی تھی )
1881عیسوی کی بات ہے کہ تاریخی مقام قندھار پشاور کے قریب بخشالی مردان میں کچھ مخطوطے زیر زمین ایک کسان کو کھیت سے ملے اس جگہ کا نام ۔بخشالی یا بکشالی تھا اس لئے ان مخطوطوں کو بخشالی مسودات یا مخطوطے (Bakhshali Manuscript) کہتے ہیں یہ نسخہ برچ کی چھال پر لکھا گیا ہے یہ مخطوطے کاربن ڈیٹینگ(carbon dating ) کے مطابق 224 تا 383 عیسوی کے لکھے ہوئے قلمی مخطوطے ہیں ایک دوسری تحقیق کے مطابق یہ 885تا993 عیسوی کی ہے (Plofker et al. 2017 & and Houben 2018 ) ان مسودات پر A. F. R. Hoernlé. اور G. R. Kaye نے تحقیق کی تھی یہ سنسکرت اور مقامی زبان میں لکھی گئے ہیں اس میں شاردہ رسم الخط(Sharda script )استعمال ہوا ہے اسطرح نئی تحقیق و شواہد کے مطابق شاردا لیپی تیسری صدی عیسوی کا رسم الخط تھا۔ یہ تحقیق آکسفورڈ یونیورسٹی کی بوڈلین لائبریریوں کی جانب سے قدیم ہندوستانی بخشالی /بکشالی مخطوطہ میں کاربن ڈیٹنگ سے سامنے آئی جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ یہ مخطوطہ 3 عیسوی کا ہو سکتا ہے۔ بخشالی مخطوطہ کی تاریخ کا تعین ریاضی کی تاریخ اور ابتدائی جنوبی ایشیائی ثقافت کے مطالعہ کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے جو برصغیر کی بھرپور اور دیرینہ سائنسی روایت کی گواہی دیتا ہے۔
بخشالی مخطوطہ شاردا رسم الخط کے ابتدائی مرحلے کا استعمال کرتا ہے، اور اس لیے اس رسم الخط کا قدیم ترین ریکارڈ فراہم کرتا ہے۔ اس طرح، شاردا دیوناگری سے بہت پہلے موجود ہے، لیکن دیوناگری کبھی بھی شاردا کی جگہ نہیں بنی۔ شاردا لیپی گرومکھی، لنڈا اور ٹکری اسکرپٹ کی ماں رسم الخط ہے۔ اس رسم الخط کا استعمال آٹھویں اور بارہویں صدی عیسوی کے درمیان کشمیر اور پڑوسی علاقوں میں اپنے عروج پر تھا۔ یہ وہ دور بھی ہوتا ہے جب کشمیر ثقافتی اور روحانی طور پر امیر تھا اور علم کا مرکز تھا۔ یہ وہ وقت ہے جب کشمیر میں شاردا پیٹھ ایک علمی مرکز کے طور پر پہچانا جاتا تھا اور پورے ہندوستان اور پڑوسی ممالک میں مشہور تھا۔ اس دوران شاردا رسم الخط میں بڑی تعداد میں کتابیں اور صحیفے لکھے گئے۔ کوئی تعجب کی بات نہیں، شاردا رسم الخط میں لکھے گئے اندازے کے مطابق 40,000 مخطوطات ہیں، جو ہندوستان، امریکہ، کینیڈا اور کئی یورپی ممالک کی مختلف لائبریریوں میں مل سکتے ہیں۔ بہت سے تباہ ہو چکے ہوں گے اور کچھ گھر والوں کے پاس پڑے ہوں گے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ مخطوطات ریاضی، علم نجوم، طب اور فلسفہ کے بارے میں علم کا بھرپور ذریعہ ہیں۔
جب بھی مذھبی انتہا پسندی کسی بھی قوم میں پنپتی ہے اس کا پہلا ہدف مقامی تہذیب و ثقافت ہوتی ہے۔جہاں شاردہ پیٹھ اور شاردہ لیپی کو جہاں ہندو کی نظر لگی وہاں ہی مسلمانوں کی بھی نظر لگی اس طرح کچھ نے پہلے
مخطوطے کو الوداع کیا اور کچھ نے رسم الخط کو ۔۔یہاں پر پرارکت کے الفاظ کو سنسکرت نے اپنے اندر سمویا اور فارسی ، ہندی اردو نے رسم الخط کو بدل دیا ۔شاردہ مخطوطے اور شاردہ رسم الخط پر جس کو موقعہ ملا یلغار کی جہاں شاردہ مخطوطے اور اسکرپٹ کو ذبح کیا گیا۔جبری طور پر تقریباً معدوم کیا گیا جس سے عام لوگ محروم رہے۔رسم الخط کے ساتھ ساتھ عظیم الشان علم مخطوطات جو اس رسم الخط میں لکھے گئے تھے معدوم ہو گئے
مشہور مورخ زون راج کے مطابق 1088ء میں ریاست گجرات کی حدود میں ایک نہایت ہی ذہین و فطین انسان پیدا ہوا۔ اس کا نام ہیما چندرا بتایا جاتا ہے۔ علم و ادب میں اس کی شہرت دور دور تک پھیلی۔ گجرات کے راجہ جیا سمہا نے اس عالم و فاضل شخص کو اپنے دربار سے منسلک کیا۔ اس علم دوست انسان نے راجہ گجرات سے التجا کی کہ وہ ایک ایسی انسائیکلوپیڈیا تیار کرنا چاہتا ہے کہ جس میں مذاہب عالم زباندانی کے آفاقی اصول اور عالمی ادب جیسے مضامین پر مکمل تحقیق موجود ہو۔ اس کام کی تکمیل کے لئے آٹھ قدیم زبانوں میں لکھے گئی گرائمر کی کتب مطلوب تھیں
ان نایاب کتب کی دستیابی کے لئے ہیما چندرا نے بادشاہ سے گزارش کی کہ یہ کتب صرف اور صرف شاردہ کی یونیورسٹی کے ذخیرہ کتب سے مل سکتی ہیں۔ اس پر بادشاہ نے ان کتب کے حصول کے لئے ایک اعلیٰ سرکاری وفد کشمیر کی راجدھانی پری وار پورا (موجودہ سرینگر) روانہ کیا۔ یوں کتب اور مسودات وغیرہ شاردہ سے گجرات پہنچائے گئے، جن کی مدد سے Siddha Hema Chandra کے نام سے کتاب تیار کروائی گئی۔
اس سے صاف عیاں ہوتا ہے کہ شاردہ لیپی رسمم الخط بہت پرانا رسم الخط ہے جس سے ایک بڑی لائبریری تیار کی گئ تھی اگر بکشالی مخطوطے کے مطابق اگر شاردہ سکرپٹ کو دوسری یا تیسری صدی کا مانا جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ یہ رسم الخط کتنا پرانا رسم الخط ہے جس کی گود سے ہندو اور بدھ کا لٹریچر نکلا ۔۔سنسکرت کے ساتھ دوسری زبانوں کا ذکر ہے جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ پہاڑی کتنی آب و تاب سے درخشاں تھی ۔۔۔چاہے اس کے آگے ہم ٹیکری اور لہندا رسم الخط کو بھی مان کر چلیں۔۔
اب پہاڑی کے لئے نستعلیق رسم الخط استعمال ہوتا ہے مگر آنے والے وقت میں یہ بھی معدوم ہو جائے گا کیونکہ اب اس رسم الخط کو رومن میں لکھا جا ریا ہے یہاں میں محترم شمس الرحمن فاروقی صاحب کا تذکرہ کرنا مناسب سمجھو گا جو خدشات شمس الرحمن فاروقی صاحب کو اردو کے رسم الخط پر ہیں وہی خدشات پہاڑی زبان کو بھی لاحق ہیں ۔۔۔شمس الرحمن فاروقی صاحب فرما تے ہیں
اردو کا رسم الخط بدل کر اسے رومن میں لکھنے کی تجویز سب سے پہلے حضرت گلکرسٹ (Gilchrist) نے رکھی تھی۔ افسوس ہے کہ ہم میں سے اکثر اب بھی گلکرسٹ کو اردو زبان کے محسنین میں شمار کرتے ہیں، جب کہ حقیقت برعکس ہے۔ اپنی کتاب The Oriental Fabulist مطبوعہ ۱۸۰۳ میں گلکرسٹ نے بخیال خود یہ ’’ثابت‘‘ کیا تھا کہ اردو ہی نہیں، بلکہ اور بھی کئی ہندوستانی زبانوں کو رومن رسم خط میں ’’آسانی اور صحت کے ساتھ‘‘ لکھا جا سکتا ہے۔ اس معاملے پر تھوڑی سی بحث مرحوم عتیق صدیقی نے اپنی کتاب Origins of Modern Hindustani Literature مطبوعہ علی گڑھ ۱۹۶۳ میں پیش کی ہے۔ لیکن گلکرسٹ کی تجویز میں جو سامراجی تکبر اور حاکمانہ تنگ نظری پنہاں ہے، اس کی طرف عتیق صدیقی نے اعتنا نہیں کیا۔ اس تجویز پر اعتراض کے بجائے صدیقی مرحوم نے اسے ’’ہندوستان کو متحد کرنے کی قابل تعریف کوشش‘‘ کا نام دیا ہے۔
حوالہ جات
1.Takao Hayashi (2008), "Bakhshālī Manuscript
2.Hayashi, Takao (1995). The Bakhshālī manuscript: an ancient Indian mathematical treatise. Groningen Oriental studies. Groningen: Egbert Forsten.Page 26 and 54
3.Brief Overview of the History of sharda Script Rakesh koul
4.irregular Sanskrit" (Kaye 2004, p. 11), or as the so-called Gāthā dialect, the literary form of the Northwestern Prakrit, which combined elements of Sanskrit and Prakrit and whose use as a literary language predated the adoption of Classical Sanskrit for this purposely.(Hoernle 1887, p. 10)
5. Plofker, Kim (2009), Mathematics in India, Princeton University Press, p. 58
اردو رسم الخط شمس الرحمن فاروقی