پہاڑی کو پنجابی کا لہجہ کیوں بولا جاتا ہے
اگر ہم تاریخ تناظر میں دیکھیں تو پہاڑی زبان بولنے والے علاقوں کو ہل سٹیٹ آف پنجاب لکھا گیا ہے اس کا جائزہ تاریخی تناظر میں لیتے ہیں
سب سے پہلے History of the Panjab Hill Statesکو دیکھتے ہیں جس کے مصنف J. Ph. Vogel and John Hutchisonہیں انھوں نے پنجاب ہل سٹیٹ پر دو والیوم مرتب کیے ہیں جس میں تمام ہل سٹیٹ بشمول پہاڑی علاقے ہیں
دوسری کتاب پنجابی مسلمان ہے
جس کو کرنل JM Wekely نے لکھا ہے اس میں تمام علاقوں اور لوگوں کا ذکر ہے جو پنجاب سلطنت کے ساتھ جوڑے ہوئے تھےاس میں پیر پنجال کے پہاڑی علاقے بھی ہیں
اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ 1819عیسوی تا 1850تک پونچھ خالصہ دربار لاہور کا حصہ رہا
اسی طرح لاہور اور امرت سر معاہدے کے بعد 1846 تا 1947مہاراجہ گلاب سنگھ اور ان کے خاندان کی حکومت رہی جو پنجابی اور ڈوگری بولتے تھے
جس زبان بولنے والے کی حکومت ہوتی ہے اس کی زبان کو عوام بولنا شروع کر دیتی ہے ،حکومت خود کوشش کرتی ہے کہ اس کی زبان پھولے پھلے تاکہ رعایا زبان اور نسل کی بنیاد پر جوڑی رہے ۔۔تیسرا سروے کرنے والے بھی یہی کوشش کرتے ہیں کہ سروے میں عوام اور عوامی زبان کو حکومتی زبان کے ساتھ جوڑا جائے اس کی مثالیں بہت سارے ممالک میں ملتی ہیں جہاں مادری زبان کی جگہ اردو ،ہندی ،فارسی وغیرہ نے جگہ لئے لی ہے
یہ کام ماہر لسانیات Sir George
Abraham Grierson
(جو 1851 میں پیدا ہوا اور 1941 عیسوی میں وفات پائی) پہاڑی کی مختلف اقسام لکھ کر لہندا کے ساتھ جوڑ دیا جو ایک رسم الخط تھا دوسرا پہاڑی علاقے پنجاب کے مغرب میں آتے تھے مغرب کو پنجابی میں لہندا کہتے ہیں جس طرف سورج ڈوبتا ہے اور پہاڑی کو بنا دیا ۔۔
دوسری بات ہے کہ اُردو زبان کے معروف محقق ڈاکٹر محمود شیرانی صاحب نے اپنی معرکة الآراء کتاب"پنجاب میں اردو" میں نہایت زور دار دلائل سے ثابت کیا ہے کہ اُردو زبان کا آغاز پنجاب ہی سے ہوا تھا۔ اگر ہم اس حقیقت کو پیش نظر رکھیں کہ اردو زبان کا آغاز مسلمان فاتحین اور مقامی ہندوستانیوں کے باہمی ارتباط اور سماجی میل جول کے نتیجے میں ہوا تو اس دعوے کو سمجھنا مشکل نہیں ہونا چاہئے۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ مسلمان فاتحین نے ہندوستان میں سب پہلے مستقل قیام لاہور میں کیا۔ اسطرح اسلام کے ساتھ عربی فارسی اور پنجابی بھی پہاڑی علاقوں میں پہنچی جن کے الفاظ کو پہاڑی نے قبول کیا جو زندہ زبانوں کی پہچان ہوتی ہے
تیسرا ایک اہم نقطہ ہے کہ علماء کرام اور شعراء جو قرآن پاک اور احادیث اور علوم باطنیہ اور تصوف پر عبور رکھتے تھے جن میں شاہ حسین لاہوری جنہوں نے کافیاں لکھیں جن میں قرآن پاک کے مضامین اور احادیث ِنبوی کی روح موجود ہے۔
مشہور زمانہ میاں محمدبخش رح بہترین عالم تھے اور سیف الملوک لکھی اگرچہ عشق کی داستان ہے مگر کئی مقامات پر انہوں نے قرآن پاک کی آیاتِ مبارکہ پر مبنی مضامین بھی بیان کئے ہیں جو عوام کے زبان پر ہمیشہ رواں رہتے ہیں
مولوی غلام رسول صاحب کی کتاب پکی روٹی جو سوالنامے کی شکل میں پنجابی زبان میں ہر مدرسے میں پڑھائی جاتی تھی
جو روحانی غذا ہے
پنجابی میں فقہ کے 47 سوال معہ جوابات لکھے گئے ہیں
ان سوالات کو زبانی یاد کرتا تھا اس کو اچھا خاصا عالم فاضل مانا جاتا تھا اور ہر مجلس میں پکی روٹی دہراتا رہتا ہم نے اپنے بزرگوں سے پکی روٹی سیکھی ہے اور اج بھی اس کو دہراتے ہیں ۔۔
اسی طرح حضرت سلطان باہو نے پنجابی سہ حرفی لکھی جس میں قرآنی آیات کے تراجم، احادیث کے مضامین، اور مسائل تصوف بیان کئے گئے ہیں۔
بابا بلھے شاہ قصوری نے آپنے کلام میں قرآن پاک کی آیات کے ترجمے، احادیث کے مضامین اور فقہی مسائل واضح انداز میں بیان کئے اسی طرح وارث شاہ نے ہیر کا قصہ لکھا جو ایک عالم تھے
نور نامہ بھی پکی روٹی کی طرح بہت مشہور ہے اور دیہاتوں میں سب کی زبان پر ہوتا تھا اس کی تعلیم بھی گھروں میں قران کی تعلیم کے ساتھ ساتھ ہوتی تھی اور اس کا پڑھنا باعث ثواب سمجھا جاتا تھا
ایک طویل نعتیہ نظم ہے
قصہ یوسف زلیخا ،معراج نامہ وغیرہ وہ کتب ہیں جو مرنے والے لواحقین چالیس دن لگاتار پڑھاتے اور سنتے رہتے تھے
اسطرح جب مسلمان پہاڑی علاقوں میں آئے تو وہ پنجاب سے آئے جہاں وہ اردو ،فارسی عربی کے اثرات لائے وہاں ہی پنجابی کے اثرات و الفاظ لائے جو پہاڑی زبان کے جز لائفنک بن گے کیونکہ جن کتب کا تذکرہ کیا گیا ہے یہ کتب تقریبا " ہر گھر کا علمی سرمایہ ہوتا تھا جس کو حفظ کرنا باعث سعادت سمجھا جاتا تھا
محققین کی نظر سے دیکھیں تو چند ایک کا تذکرے پر اتفا کیا جائے گا جن میں ڈاکٹر جعفری صاحب ہیں جو لکھتے ہیں کہ
"لوک گیتوں کے علاوہ بھی ہماری ساری پنجابی شاعری پر بالعموم اور صوفیانہ شاعری پر خاص طور پر قرآنِ پاک کے اثرات واضح دکھائی دیتے ہیں۔ کیونکہ پنجابی شاعری کا سنگ ِبنیاد مسلمانوں کے ہاتھوں رکھا گیا۔ اس لئے اس
میں قرآن پاک کے لسانی، فکری اور موضوعاتی اثرات کا ہونا ایک فطری بات تھی۔" (نویں زاویے، ص ۴۷۰)
ڈاکٹر جعفری صاحب نے صوفیانہ شاعری کے بڑے ناموں کا تذکرہ اس مضمون میں کیا ہے۔ حضرت بابا فریدالدین مسعود گنج شکر کے بارے میں لکھتے ہیں:
" آپ کو قرآن پاک، تفسیر اور فقہ پر عبور حاصل تھا۔ آپ شریعت کے پابند اور طریقت کے محرمِ راز تھے۔ آپ نے پنجابی شاعری کو اپنے خیالات کے اظہار اور اسلام کی تبلیغ کاذریعہ بنایا اور قرآن پاک کے فکری نظام کو شعروں کی صورت میں اس قدر عام فہم اسلوب میں بیان کیا کہ معمولی سمجھ بوجھ رکھنے والا شخص بھی ان خیالات، اور تعلیمات کو سمجھ لیتا تھا۔" (صفحہ ۴۷۰)
جب یہ تعلیمات بھی پہاڑی علاقوں میں پہنچی تو وہاں کے پہاڑی مسلمانوں نے سر خم تسلیم کیا اور مسلمانوں کے ساتھ ساتھ سکھ اور ہندو دھرم کے ماننے والوں نے قبول کیا کیوں کہ پنجابی ادب میں بکھتی تحریک کی جھلکیاں رہی ہیں
یہ وہ اسباب تھے جس کی وجہ سے پہاڑی کو پنجابی اور پنجابی کا لہجہ مانا گیا
x